ہم تو کرتے چلے جائیں گے یہ سفر
ویسے بھی اب نہیں ہے کوئی اپنا گھر
آشیاں جو زمانہ اڑا لے گیا
تنکا تنکا گیا ہے یہاں جو بکھر
سب ہی اپنے سفر میں اکیلے یہاں
کوئی ہوتا نہیں ہے یہاں ہمسفر
اب تو آوارگی بس ہے آوارگی
اب تصور مکاں کا ہوا بے اثر
ہے عجب سا زمانے کا انصاف بھی
ہے جو کم تر یہاں ہے وہی خوب تر
میرے اندر ہے اب میری مصروفیت
مجھ کو کافی ہے میرا یہ سوزِ جگر
کوئی منزل یہاں پر نہیں تھی کبھی
یہ سفر جو سفر تھا برائے سفر
سب ہیں مشغول اپنی سجاوٹ میں بس
ہے نہیں پھر کسی کو کسی کی خبر
کس لئے ہم بنائیں گے پکا مکاں
ہے یہ تیرا نگر اور نہ میرا نگر
کیسی موجوں میں رہتے ہیں سب ہی مگن
جو کسی کا کسی کو نہیں کوئی ڈر
اب کہیں اور جانا پڑے گا ہمیں
مل نہ پائے گا ہم کو یہاں پر ثمر
مجھ کو مایوس تو نے جو کر ہی دیا
تیری گلیوں میں رہنا تھا مجھ کو مگر
اے ہمایوں تعین تو کر لے کوئی
تو نے جانا ہے اب کے یہاں سے کدھر
ہمایوں

0
17