عالمِ حزن پر تپاک سہی
تو نہیں تو ترا فراق سہی
پسِ منظر ہے اک دریچۂِ شوق
روح اور دل جہاں ہلاک سہی
رنگِ بے ماجرائی میں ڈھل کے
اپنی ہی ذات کا مذاق سہی
رات بھر رہنا زیرِ سایۂِ ہجر
رتجگوں کا یہ اشتیاق سہی
مست ہیں وہ تو اپنی مستی میں
اپنا انجام خوفناک سہی
خانہ ویرانی دل کی جاتی نہیں
خصلتِ قلب احتراق سہی
گرچہ مشکل ہے، جسم ڈھکنے کو
یہ قباۓ فراق، شاق سہی
دل بہلنے کو عشق پھر سے ہو
پھر سے یہ کارِ شرمناک سہی
زیبؔ وہ منظرِ دیارِ یار
سر بہ سر خاک ہے سو خاک سہی

0
63