ہنسنے والے شخص کا اپنے دل پر قابو ہو گا نا
آنسو ہو گا یا پھر اس کی آنکھ میں جادو ہو گا نا
شور مچانے والے بچّے یوں جو خاموش ہوئے ہیں
تتلی ہو گی باغ میں یا پھر کوئی جگنو ہو گا نا
وصل کی شب ہم نزع میں کیا آرام سے سوئیں گے بیمار
اوپر سر کے یار کا بازو، نیچے زانو ہو گا نا
خوش ہوں میں بدلاؤ سے لیکن حاکمِ وقت بتاتا جا
یہ جو نیا قانون بنا ہے تجھ پہ بھی لاگو ہو گا نا
یار کی محفل میں ورنہ کیا کام تھا غیر کے آنے کا
سوچ ذرا او دیوانے! وہ بھی تو مدعو ہو گا نا
زخم جو ایسے گہرے آئے ہیں دل پر، الفاظ نہیں
اس ظالم کی تیز زباں میں کیسا چاقو ہو گا نا
زیرِ زمیں تنہاؔ تو نہیں ہوں گے ہم، اے جان! تسلّی رکھ
آخر اس بد عہد صنم کی یاد کا پہلو ہو گا نا

0
36