مسلمانوں کو کیا یہ ہو گیا ہے
ضمیر ان کا کہاں پر سو گیا ہے
نہیں کانوں پہ جوں تک رینگتی اب
مسلماں اپنی غیرت کھو گیا ہے
فلسطینی لہو اتنا ہے ارزاں
کسی کو کیا بہایا جو گیا ہے
نصیبوں پر جو بمباری ہوئی ہے
بجا قسمت کو اپنی رو گیا ہے
نہایا خون میں بوڑھا مریض اب
دوا لینے کو گھر سے تو گیا ہے
بہا معصوم بچوں کا لہو جو
گناہوں کو وہ کس کے دھو گیا ہے
ہیں بکھریں ہر طرف معصوم لاشیں
یہ نظّارہ تو نفرت بو گیا ہے
بندھائیں باپ کی ڈھارس بھلا کیا
وہ خوش ہے بیٹا جنّت کو گیا ہے
ترقّی حضرتِ انساں کی دیکھو
دلوں کے بوجھ سارے ڈھو گیا ہے
بھلا طارق کو کیوں ہو دوش دیتے
وہ کہہ کر لفظ تو اک دو گیا ہے

0
18