رکھتے تھے شوق کر کے جو دیدار مر گئے
جلوے سے ایک خود سرِ بازار مر گئے
ماحول اُس گلی کا نہ راس آ سکا انہیں
کوٹھی سے آئے کوٹھے پہ دو چار مر گئے
صد حیف کہہ نہ پائے تھے جو حالِ دل کبھی
کرنے سے پہلے پیار کا اظہار مر گئے
دیکھا نگاہِ ناز سے اس نے کچھ اس طرح
ڈھائی قیامت ایسی کہ دلدار مر گئے
وہ جن کو وصل کی کبھی منزل نہیں ملی
“جن جن کو تھا یہ عشق کا آزار مر گئے”
جیتے تھے نام لے کے جوانی میں ان کا جو
کہتے ہیں ہو گئے تھے وہ بیمار مر گئے
جو سامنے مرے ہیں شمار ان کا کم نہیں
وہ لوگ بھی ہیں جو پسِ دیوار مر گئے
آزادیٔ خیال کے قائل نہیں بچے
اب تک رہے جو بر سرِ پیکار مر گئے
آزادیٔ ضمیر کا سودا نہیں ہوا
کہتا ہے کون اس کے خریدار مر گئے
ہاتھوں جنوں کے اہلِ خرَد کھا گئے شکست
وہ عشق میں ہوئے جو گرفتار مر گئے
جس نے قلم سے وار کیا جیت وہ گیا
جو لے کے آئے ہاتھ میں تلوار مر گئے
طارق مرے چہیتے تھے جی دار تھے سبھی
وہ ایک ایک کر کے سبھی یار مر گئے

0
7