دانستہ جبر کی وہ سفارت بھی کرتے ہیں |
کچھ الفتوں کی آج تجارت بھی کرتے ہیں |
جب دیکھتے نہیں ہیں عداوت کے کچھ سوا |
سو نام ان کے اپنی بصارت بھی کرتے ہیں |
محفوظ ہیں بساط پہ مہرے اسی طرح |
جو روز بڑھ کے آگے شرارت بھی کرتے ہیں |
کر کے تباہ شہر ، دلوں کا نگر کوئی |
ہوتے ستم کی ہر وہ حمایت بھی کرتے ہیں |
اک کھیل کے وہ کھیل محبت کا رات بھر |
دشمن بنے وفا کے ، قیامت بھی کرتے ہیں |
شوخی ادا کے بھیس میں کھلتے گلاب سے |
دنیا میں دل پہ سب کے حکومت بھی کرتے ہیں |
ہم مانتے نہیں ہیں انہیں گل بہار کے |
اشکوں سے جو خزاں کی طراوت بھی کرتے ہیں |
سنبھال کے تو رکھ سبھی بوندیں وفاؤں کی |
گلنار سی جو بزم میں حالت بھی کرتے ہیں |
لگتی نہیں ہیں آنکھیں ہماری ! اے زندگی |
ہم کھل کے تجھ سے دیکھ بغاوت بھی کرتے ہیں |
شاہد جو بس گیا ہے زمانوں میں اب مرے |
ہم اس کو بھولنے کی جسارت بھی کرتے ہیں |
معلومات