یہ داستاں ہے میری ان غمزدہ دنوں کی |
آئی تھی جب مصیبت مجھ پر منوں ٹنوں کی |
ویران تھا مرا دل خانہ خراب تھا میں |
کہتے ہیں جب اسیرِ عہدِ شباب تھا میں |
اس وقت میں جہاں سے کچھ آشنا نہیں تھا |
میرے لئے جہاں میں کوئی اماں نہیں تھا |
پوچھا تھا میں نے اپنے استاذِ محترم سے |
آزردہ دل لیے تھا کہتا تھا چشمِ نم سے |
ڈوبے ہوئے ستارے بنتے نہیں صنم کیوں ؟ |
جھکتے نہیں ہیں ان کے آگے مگر عجم کیوں ؟ |
کیا بات ہے کہ انساں نسبت بھی توڑتے ہیں |
سارے رفیق اس دم سنگت بھی چھوڑتے ہیں |
یہ سن کے سانس لمبی لی شاہِ محترم نے |
گویا کہ بت کے آگے سجدہ کیا حرم نے |
بیٹا ! سنو یہ حق ہے دستور ہے جہاں کا |
ڈوبا ہوا ستارہ کیوںکر ہو آسماں کا |
چھوڑو یہ تم بھی ڈوبے خورشید سے رفاقت |
دنیا یہِ مہرِ تاباں سے جوڑتی ہے نسبت |
خورشیدِ نورِ افزا ہو گر تو ہو خدا تم |
لاکھوں کے درمیاں میں ہو گے سدا جدا تم |
وہ آفتاب بن جا جس سے جہاں ہو روشن |
کر ترک ٹمٹماتے تاروں کا اب نشیمن |
تو بھی اگر ابھرتا خورشید بن گیا ہے |
سمجھو جہاں ہے تیرا توحید بن گیا ہے |
آئے گا تیرے در پر پھر دوڑتا زمانہ |
ہو گا جہاں پجاری عالم ترا دیوانہ |
بیتاب تجھ سے ملنے ہوں گے سبھی پریشاں |
آئیں گے کہکشاں بھی شبنم کلی گلستاں |
خود میں کرو تو پیدا وہ گوہرِ یگانہ |
عش عش کرے گا تجھ پر پھر دیکھنا زمانہ |
کرتے ہیں جو بھی محنت پاتے ہیں وہ بلندی |
تقدیر سے شکایت نے کارِ عقلمندی |
میں دیکھتا ہوں تجھ میں پوشیدہ اک جہاں ہے |
خورشید و ماہ و انجم کا کارواں نہاں ہے |
اپنی خودی کو جانوں پہچانوں اپنی ہستی |
ہے آسماں سے اوپر تیری بلند بستی |
اب میں بھی دیکھتا ہوں مجھ میں بھی کچھ نہاں ہے |
اک کائنات پنہاں پوشیدہ اک جہاں ہے |
کم عمر ہوں میں لیکن باتیں بڑی ہیں میری |
اسلاف کا جگر ہے اعلی ہے فکر میری |
بیتاب و مضطرب ہوں بے چین دل پریشاں |
کیسے مقام پاۓ دنیا میں پھر مسلماں |
ہو سلطنت حکومت اسلام کی جہاں میں |
اس رنگ کا میں بلبل تنہا ہوں گلستاں میں |
یہ بات اب کی شاہؔی میری سمجھ میں آئی |
استاذ کی نصیحت کیا خوب رنگ لائی |
معلومات