دنیا بدل گئی ہے زمانہ بدل گیا
تُولا و اُنس کا وہ فسانہ بدل گیا
اِکراہ کا رنگ ایک جو پھیلا بہار میں
طائِر کا اب چمن میں ترانہ بدل گیا
آفات میں جو ایک سہارا تھا دوستو
افسوس ہے کہ اب وہی شانہ بدل گیا
جاہ و حَشَم کے واسطے روتے ہیں اب یہاں
لاچار بے بسوں کا وہ گانا بدل گیا
اعمالِ بد ہی تیرے نکلتے ہیں جسم سے
جاتا ہے جو شِکَم میں وہ دانا بدل گیا
اپنے مفاد کے لیے لڑتے ہیں لوگ اب
الفت میں رب کی جان سے جانا بدل گیا
حسانؔ دیکھ شہر نیا ہو گیا ترا
جو کچھ بھی تھا یہاں وہ پرانا بدل گیا

0
42