یاروں کی کچھ خطا تھی نہ دل کا قصور تھا |
جس نے کیا تباہ وہ میرا غرور تھا |
فوری جزا ملے یہی خواہش میں چور تھا |
میں اس قدر ازل سے یہاں ناصَبُور تھا |
شام و سحر عجب سی بلا کا ظہور تھا |
لگتے گلے ہی تیرے یہ دل چور چور تھا |
سمجھا نہ وہ تو فہم کا اس کے قصور تھا |
وہ تم نہ تھے مگر کوئی تم سا ضرور تھا |
میں کس زباں سے حالِ دل اپنا بیاں کروں |
گفت و شنود کی میں کسالت سے چور تھا |
میں تو سمجھ رہا تھا کہ منزل وہیں پہ ہے |
نام و نشان اس کا وہاں سے بھی دور تھا |
حسانؔ دستِ یاری بڑھایا تھا جس طرف |
ہاتھوں میں ان کے اک چھپا نشتر ضرور تھا |
معلومات