یاروں کی کچھ خطا تھی نہ دل کا قصور تھا
جس نے کیا تباہ وہ میرا غرور تھا
فوری جزا ملے یہی خواہش میں چور تھا
میں اس قدر ازل سے یہاں ناصَبُور تھا
شام و سحر عجب سی بلا کا ظہور تھا
لگتے گلے ہی تیرے یہ دل چور چور تھا
سمجھا نہ وہ تو فہم کا اس کے قصور تھا
وہ تم نہ تھے مگر کوئی تم سا ضرور تھا
میں کس زباں سے حالِ دل اپنا بیاں کروں
گفت و شنود کی میں کسالت سے چور تھا
میں تو سمجھ رہا تھا کہ منزل وہیں پہ ہے
نام و نشان اس کا وہاں سے بھی دور تھا
حسانؔ دستِ یاری بڑھایا تھا جس طرف
ہاتھوں میں ان کے اک چھپا نشتر ضرور تھا

0
41