وہ رہ کے میرے پاس بھی جو دور دور رہ گیا
نہ کہہ کے کوئی بات بھی وہ ساری بات کہہ گیا
گزر گئی وہ رات بھی گزر گئیں وہ ساعتیں
جو تھے نہیں مرے لئے وہ غم بھی میں تو سہہ گیا
یوں تیری بھی تھیں حجتیں تو میرے بھی سوال تھے
یہ ربط تیرا تھا کمال مصلحت میں بہہ گیا
وہ کام تیرے اور تھے جو کرنے بھی ضرور تھے
تو لازمی نہیں تھا میں سو رہتے رہتے رہ گیا
وہ کر دیا ہے ترک کیوں ہمایوں سے یہ سلسلہ
خیال تھا وہ کون سا جو دے کے تجھ کو شہ گیا
ہمایوں

0
12