تیری تصویر تک نہیں پہنچے
اپنی تقدیر تک نہیں پہنچے
دل محلے جو کرنے تھے آباد
کبھی تعمیر تک نہیں پہنچے
سینہ محسوس کر رہا ہے چبھن
دل جگر تیر تک نہیں پہنچے
راہِ مقتل میں مضمحل ہیں ہم
تیری شمشیر تک نہیں پہنچے
خواب در خواب دیکھتے ہی رہے
کسی تعبیر تک نہیں پہنچے
ہم بہت انتظار کرتے رہے
آپ تاخیر تک نہیں پہنچے
زندگی کرنا چاہتے تھے رقم
لفظِ تحریر تک نہیں پہنچے
دو کچھ ایسی دوا طبیب! مجھے
کبھی تاثیر تک نہیں پہنچے
جونؔ، تنہاؔ بھٹکتے پھرتے رہے
غالبؔ و میرؔ تک نہیں پہنچے

0
93