کامرانی کی اگر تو کَلید چاہیے
طلبِ علمِ روز افزُوں شدید چاہیے
جا نہ پہنچے بامِ تہذیبِ عُریاں کو کبھی
فَن و حِرفہ اس قدر ہی جدید چاہیے
پست تر ہے کشمکش لِلبقا کا یہ ہدف
بہترین سے بہتر مزید چاہیے
پَو کہ پھُوٹتی ہے بطنِ شبِ سیاہ سے
تیرگی میں رکھنی قائم امید چاہیے
ہو قرارِ واقعی رب سے تیری گفتگو
گویا روز روز عیدِ سعید چاہیے
بُتِ روزگار اصنامِ رفتہ میں بڑھا
مُرتسم مگر نگاہِ وحید چاہیے
دل گرفتہ ہےنو آموز سَہوِ مشق سے
مِؔہر یاس مندی لیکن بعید چاہیے
----------٭٭٭----------

66