ہاتھ رکھ کے نبض پر طبیبوں نے کل |
یہ کہا لے کے جاو یہاں سے اسے |
اب ضرورت دواؤں کی اس کو نہیں |
اب دوا سے ہے بہتر دعا کیجیے |
لاکھ سمجھایا موسٰیؑ , خدا نے مگر |
چل پڑے جانبِ طور حسرت لیے |
کھو دیا ہوش خود بھی مگر ساتھ ساتھ |
طور کو بھی جلا بیٹھے کیا کیجیے |
راستہ تو بتاتے سبھی ہیں مگر |
ساتھ چلنے کو تیار اک بھی نہیں |
مشورے دینے والے ہزاروں ملے |
ہو سکے کچھ تو اس کے سوا کیجیے |
ہو ذرا سی خطا مجھ سے سرزد جونہی |
نام اللّٰہ کا لے کر ڈراتے مجھے |
خود کلیجے مرے سے رہے کھیلتے |
اپنی باری بھی خوفِ خدا کیجیے |
جب کہا تھا مرا , ہے محبت علاج |
تب ذرا بھی نہ پرواہ تجھ کو ہوئی |
بچنا ممکن نہیں اب کسی حال میں |
اب دوا کیجیے , یا دعا کیجیے |
معلومات