ہر سو ہے اس جہاں میں بغاوت کی انتہا |
اے کاش یاں پہ ہوتی سخاوت کی انتہا |
پہلے نہ دیکھتے تھے نگاہِ خفیف سے |
اب تم میں بس گئی ہے حقارت کی انتہا |
قتلِ بشر ہوا ہے مذہب کے نام پر |
اس ملک میں عجب ہے عداوت کی انتہا |
اب ہم کو اس طرح سے ستانا محال ہے |
اب ہو چکی تمہاری شرارت کی انتہا |
”درپن زمیں پہ رکھ کے کچلتا ہوں آسماں“ |
وہ پوچھتے ہیں مجھ سے جسارت کی انتہا |
میٹھا کلام سن کے امارت قبول کی! |
ہوتی ہے کچھ بشر میں جہالت کی انتہا |
جب دل فدا نہیں ہے خدا اور رسول پر |
پھر لاکھ تم بھی کر لو عبادت کی انتہا |
معلومات