ہر سو ہے اس جہاں میں بغاوت کی انتہا
اے کاش یاں پہ ہوتی سخاوت کی انتہا
پہلے نہ دیکھتے تھے نگاہِ خفیف سے
اب تم میں بس گئی ہے حقارت کی انتہا
قتلِ بشر ہوا ہے مذہب کے نام پر
اس ملک میں عجب ہے عداوت کی انتہا
اب ہم کو اس طرح سے ستانا محال ہے
اب ہو چکی تمہاری شرارت کی انتہا
”درپن زمیں پہ رکھ کے کچلتا ہوں آسماں“
وہ پوچھتے ہیں مجھ سے جسارت کی انتہا
میٹھا کلام سن کے امارت قبول کی!
ہوتی ہے کچھ بشر میں جہالت کی انتہا
جب دل فدا نہیں ہے خدا اور رسول پر
پھر لاکھ تم بھی کر لو عبادت کی انتہا

0
41