کیسا یہ حسرتوں بھرا اپنا نصیب تھا |
جب جل رہے تھے خواب سمندر قریب تھا |
اپنی صدائیں تھیں بسی کانوں میں سب مرے |
کتنا وفاؤں کا یہ سفر بھی عجیب تھا |
دل میں مرے نہ تھی کوئی جاگی سی کشمکش |
سب سے بڑا ہی جیسے میں اپنا رقیب تھا |
تھی بد گمان مجھ سے خدا کی خدائی سب |
یہ پوچھتے تھے لوگ تو کس کا حبیب تھا |
خاموش کر دیا ہے ، گئے وقت نے ہمیں |
اک راجہ تھا محل کا ، کہاں میں غریب تھا |
مرعوب تھا نہ ہم سے کوئی بھی جہاں میں پر |
ہنس جگ دیا تھا مجھ پہ کہ میں تو ادیب تھا |
شاہد تھا قصہ مقتلوں کا بھی نرالا کچھ |
پہنچے مجھے جہاں وہ لے کے بے صلیب تھا |
معلومات