شِعارِ عشق کا عجب طریق ہو گیا
کہ ثالثی بھی شاملِ فریق ہو گیا
مُقابلے میں کھیلتا تھا ہار میں مری
وقوعِ فتح مندی پر رفیق ہو گیا
سفینہ میرا سطحِ آب آگیا مگر
بحیرہ گُربہ چشم اب عمیق ہو گیا
سلجھ گیا تھا عُقدہ عشق کا کسی قدر
یہ نُکتہِ بے وزن اور دقیق ہو گیا
تھا نامور کٹھور دل وہ شہر میں بہت
وہ دل مرے کلام سے رقیق ہو گیا
مِؔہر ہُوا زمانتوں پے بازیاب تھا
دوبارہ بحرِ عشق میں غریق ہو گیا
----------٭٭٭----------

1
135
منیب صاحب آپکے اظہارِ پسندیدگی
کا شکریہ !
سدا خوش رہیں آپ
عدنان مُغل

0