شِعارِ عشق کا عجب طریق ہو گیا |
کہ ثالثی بھی شاملِ فریق ہو گیا |
مُقابلے میں کھیلتا تھا ہار میں مری |
وقوعِ فتح مندی پر رفیق ہو گیا |
سفینہ میرا سطحِ آب آگیا مگر |
بحیرہ گُربہ چشم اب عمیق ہو گیا |
سلجھ گیا تھا عُقدہ عشق کا کسی قدر |
یہ نُکتہِ بے وزن اور دقیق ہو گیا |
تھا نامور کٹھور دل وہ شہر میں بہت |
وہ دل مرے کلام سے رقیق ہو گیا |
مِؔہر ہُوا زمانتوں پے بازیاب تھا |
دوبارہ بحرِ عشق میں غریق ہو گیا |
----------٭٭٭---------- |
معلومات