ہر سمت کھو چکی ہے نظر کچھ نہیں آتا
اب تیری محبت کا اثر کچھ نہیں آتا
پھر تیرا یہ احساس ہوا برف کی مانند
جو بجھ چکی ہے آگ شرر کچھ نہیں آتا
ہر روز اک امید کا میں دیپ جلاؤں
ہر شام اداسی ہے جو گھر کچھ نہیں آتا
اک شور سا رہتا ہے جو ہر وقت یہاں پر
کیوں میری سماعت میں مگر کچھ نہیں آتا
اس زیست کا ہر لمحہ جو گزرا ہے ہمایوں
کیوں لوٹ کے اب اس کا ثمر کچھ نہیں آتا
ہمایوں

0
24