عالمِ ذی شان رخصت ہو گیا
سہ ریا کی شان رخصت ہو گیا
ہر طرف آہ و بکا کیوں شور ہے
ماہ سا مہمان رخصت ہو گیا
جامعہ کے بام و دَر پر خامشی
چُست اک دربان رخصت ہو گیا
عندلیبانِ چمن خاموش ہیں
خوب رو نگران رخصت ہو گیا
کہہ رہے ہیں میکدے کے رند سب
جام کا ارمان رخصت ہو گیا
روشنی کرکے ستارہ ہر طرف
مثل اک انجان رخصت ہو گیا
آہ کیسا تھا مسافر احمدا
ٹھہرا بس اک آن رخصت ہو گیا

2