اس کی تقدیر فلک پر سے جو مبرم اتری
دو جہانوں میں اسے کر کے وہ اکرم اتری
کوئی چپکے سے اتر آیا مرے خوابوں میں
رات گلشن میں دبے پاؤں جو شبنم اتری
دے گیا کوئی جواں سال شہادت کی خبر
یہ خوشی غم کے سیہ سائے میں مدغم اتری
دل نے جب بوجھ اتارا ہے جُدائی کا تری
موتیوں کی بھی لڑی آنکھ سے پُر نم اتری
تیری صحبت میں گزارے تھے ابھی دن کتنے
تیری فرقت مری قسمت میں جو ہمدم اتری
چین آتا ہی نہ تھا دل کو جو پہنچا صدمہ
ایک آواز بنی زخموں کا مرہم اتری
جب سنی ایک صدا مجھ کو یہ محسوس ہوا
جیسے گیتوں کی کوئی لے بڑی مدھم اتری
دل کی بے چینی کو جیسے کوئی دیتا ہے قرار
آسماں سے کوئی تسکین ہے ہر دم اتری
طارق انجام محبّت کا سنا ہے میں نے
وصلِ محبوب کی خوش خبری تو کم کم اتری

0
47