جگ میں خلوص کی کوئی عادت نہیں رہی |
منزل سے آشنا بھی قیادت نہیں رہی |
ایسا نہیں وفا کا ہی سودا نہیں رہا |
اس جنس کی نگہ میں بھی قیمت نہیں رہی |
حاصل اسے نہیں ہے قدر کی جگہ کوئی |
اس کی دلوں پہ دیکھ حکومت نہیں رہی |
ہو مہربان ہم پہ نظر کرم کس طرح |
اک آنکھ میں جہاں کی ، محبت نہیں رہی |
احساس یہ ہوا ہے ہمیں مل کے یار سے |
اس کو بھی آج اپنی ضرورت نہیں رہی |
آتی پرندوں کی نہیں اڑتی قطار اب |
شاہد اڑان ان کی کوئی فطرت نہیں رہی |
معلومات