جگ میں خلوص کی کوئی عادت نہیں رہی
منزل سے آشنا بھی قیادت نہیں رہی
ایسا نہیں وفا کا ہی سودا نہیں رہا
اس جنس کی نگہ میں بھی قیمت نہیں رہی
حاصل اسے نہیں ہے قدر کی جگہ کوئی
اس کی دلوں پہ دیکھ حکومت نہیں رہی
ہو مہربان ہم پہ نظر کرم کس طرح
اک آنکھ میں جہاں کی ، محبت نہیں رہی
احساس یہ ہوا ہے ہمیں مل کے یار سے
اس کو بھی آج اپنی ضرورت نہیں رہی
آتی پرندوں کی نہیں اڑتی قطار اب
شاہد اڑان ان کی کوئی فطرت نہیں رہی

0
42