بے بندگی سے جینے میں عزت نہ ملے گی
بے شرمی کو برتنے سے بھی عفت نہ ملے گی
گر دل کی عدالت میں ہو درخواست بھی تو کیا
"اب حرفِ تمنا کو سماعت نہ ملے گی"
مسکان ہی غم میں ہے کرن بن کے ابھرتی
مایوس ہو جاتے ہیں تو فرحت نہ ملے گی
دنیا کو ترقی تو بہت ساری ہے حاصل
پر ڈھونڈ کے ورثہ ءِ ثقافت نہ ملے گی
گلشن میں حسیں پھول بہت رہتے کِھلے ہُوئے
ہو دیدنی ایسی کہیں طلعت نہ ملے گی
اعمال سے روحانی سکوں میں ہو اضافہ
ایمان ہو کمزور تو راحت نہ ملے گی
کردار سے پہچان بھی پختہ بنے ناصؔر
بدخلقی سے بالکل بھی شرافت نہ ملے گی

0
84