کہ میرے بعد تجھے چاہتوں کی پیاس ملے |
تو دیکھتی رہے کوئی نہ تجھ کو پاس ملے |
کمال ہو کہ تو لوٹے مجھے تلاش کرے |
نگر نگر تو پھرے اور تجھے بھی یاس ملے |
تو بھی بتا نہ سکے زخمِ دل کسی کو کبھی |
کہ میرے بعد تجھے زخم ایسا خاص ملے |
کبھی نہ دیکھ سکے تُو ہنسی لبوں کی کہیں |
کہ شخص جو بھی ملے تجھ کو بس اداس ملے |
کبھی ملے نہ کوئی ذائقںوں میں لطف تجھے |
نہ زندگی میں تجھے پھر کوئی مٹھاس ملے |
تو پھر ملے نہ محبت کہیں کسی سے تجھے |
کہ ٹوٹ جائے تجھے جو کہیں بھی آس ملے |
گزر ہی جائے تری زندگی خیالوں میں |
یقیں تجھے نہ ملے بس تجھے قیاس ملے |
وہ سب ہی چھپ گئے ہیں رات کے اندھیرے میں |
تجھے بھی لوگ ہمایوں جو آس پاس ملے |
ہمایوں |
معلومات