مُدت گُذری |
اُسکی جھلک تک نہیں دیکھی |
گو میرے سیل فُون کے فولڈر |
اُس کی تصاویر سے |
بھرے پڑے ہیں |
مگر عکسِ حقیقت کے مقابل |
ان کا گُمان کیا.۔ |
مُدت گُذری |
میری سماعتوں میں |
رس نہیں گُھلا |
وہ حلاوت نہیں اُتری |
جو دل کے گنبد میں |
شربتی سماں بنائے رہتی ہے |
مُدت گُذری |
اُس کا کوئی پیغام نہیں آیا |
نہ محبت نہ ہی نفرت بھرا |
کوئی جُملہ ہی احباب.... |
گو میرے دماغ کی لائبریری |
اُس کی باتوں اور پیغاموں کے |
دیوانوں سے بھری پڑی ہے |
مُدت گُذری |
اس شخص نے دل سے نکالا نہیں مُجھ کو |
بس جیون سے نکال باہر کیا |
گو وہ جانتا ہے میں اُسکا ہوں |
مگر وہ شخص میرا نہیں رہا |
مُدت گُذری..۔ |
مُدت گُذری رابطوں پر قہر ٹُوٹے ہوئے |
بے نوائی اور بے مروتی کا |
اُسے میرا سامنا بھی منظُور نہیں |
ڈرتا ہے شاید وہ بھی |
اپنے اندر کی چنگاڑتی فرقت سے |
مُدت گُذری.... |
فیصل ملک |
معلومات