بابا مجھ کو چوڑیاں لادو
چھوٹی سی اک پری تھی گھر میں
بھاگتی پھرتی سارے گھر میں
اس سے روشن تھی بابا کی آنکھیں
ماں کے سینے کی وہ تو ٹھنڈک تھی
جان دونوں کی تھی اسی میں
دیکھ کر اس کو وہ تھے جیتے
کھیلتے ہوئے اس کو اک دن
جانے کیسا خیال آیا
بھاگ کر اپنے
بابا کے سینے پر جا بیٹھی
ہاتھ وہ اپنے پھیلا کر بولی
بابا دیکھو کلائیاں میری
جانے کب سے یہ خالی ہیں
مجھ کو تم بابا چوڑیاں لادو
لاڈ سے بابا کو وہ بولی
چوڑیاں پیارے پیارے رنگوں کی
ہوں جو سب سے ہی پیاری
رانی نوری سے بھی پیاری ہوں جو
مجھ کو تم ایسی چوڑیاں لا دو
ٹھان لی بابا نے یہ دل میں
کچھ بھی ہو بیٹی کی یہ خواہش ہے
چوڑیاں مجھ کو لانی ہیں
پھر وہ بازار جا ہی پہنچا
پیاری سی چوڑیاں لے کر
گھر کی جانب چلا وہ
خوش تھا وہ دیکھ کر تصور میں
چاند سا چہرا بیٹی کا
جب وہ گھر پہنچا
اک قیامت کا وہ تو منظر تھا
شعلے رقصاں تھے ہر طرف
اور
اس کی دنیا اجڑ چکی تھی
لاڈلی بیٹی اس کی مر چکی تھی
چوڑیاں ہاتھ میں لے کر وہ
ایک ہی بات کہتا ہے
کوئی امت کے ہر مسلماں کو
چوڑیاں لے جا کر یہ پہنا دو
ملک اسد
12-8-20

0
144