یہ نہ پوچھو کربلا کی جنگ میں کیا کیا ہوا
بس یہ دیکھو دو جہاں میں کس کا سر اونچا ہوا
قطعہ بند
جا رہا ہوں اس طرف قرآں سراپا ہے جدھر
حرؑ چلا آیا سوئے سرور یہی کہتا ہوا
حرؑ کا آنا شاہِ دیں کے ساتھ ثابت کر گیا
کارواں سے مل گیا آکے جو تھا بچھڑا ہوا
قطعہ بند
دفعتاً جب پڑگئی غازیؑ کی دریا پر نظر
پانی پانی ہو گیا دریا تو یوں گویا ہوا
حکم ہوتا آپ کا غازی چلا آتا میں خود
آبِ دریا کہہ رہا تھا پاؤں سے لپٹا ہوا
روضۂِ عباسؑ و سرورؑ اس طرح ہیں رو برو
آئینہ ہو آئینے کے سامنے رکھا ہوا
روضۂِ سرورؑ کا زائر یہ کہے گا خلد میں
باخدا یہ ہے نظارہ پہلے سے دیکھا ہوا
فاطمہؐ بنتِ اسد یہ آپ کا احسان ہے
آمدِ حیدرؑ سے کعبہ لائقِ سجدہ ہوا
دولتِ اولاد پائی جب تو راہب نے کہا
ہم نے وہ پایا نہ تھا جو لوح پر لکھا ہوا
کیوں نہ پائی میں نے وہ قسمت جو تارے کو ملی
چاند پر اب بھی ہے حسرت کا نشاں ابھرا ہو
بغضِ حیدرؑ میں بصیرت کھوئی، لکنت آگئی
پڑھ رہے ہو دال جبکہ ضاد ہے لکھا ہوا
داغِ ماتم لے کے جب محشر میں پہنچا میں ظہیرؔ
اک صدا آئی کہ، آنے دو! یہ ہے بخشا ہوا

0
20