جب سے مرض لگا اُسے وہم و گمان کا |
رستہ وہ بھول بیٹھا ہے میرے مکان کا |
تاروں کی اور قمر کی اسے چاہتیں جو ہیں |
خود کو سمجھ رہا ہے مکیں آسمان کا |
پھولوں کی دیکھ بھال کو ہم نے رکھا جسے |
دیمک تھا باغبان نما گلستان کا |
مت بن کھلی کتاب کسی کے بھی واسطے |
بن جائے گا رقیب وہ تیری ہی جان کا |
عہدِ وفا وہ کر کے مجھے دے گیا دغا |
کیسے یقین کر لوں اب اُس بد زبان کا؟ |
رہبر ! وہ زندہ تھوڑی ہیں مردہ سمجھ انہیں |
کرتے نہیں جو شکر ادا مہربان کا |
معلومات