تم پیار کے مجرم کو سزا کیوں نہیں دیتے
نظروں سے جہاں بھر کی گرا کیوں نہیں دیتے
سنتے ہیں کہ آنکھوں کا نشہ مے سے سوا ہے
مخمور نگاہوں سے پِلا کیوں نہیں دیتے
تنہائی میں رکھتی ہیں شب و روز جو بے کل
وہ یادیں تصوّر سے مٹا کیوں نہیں دیتے
آ جایا کروں آنکھوں کے رستے کبھی اُس میں
آخر مجھے تم دل کا پتا کیوں نہیں دیتے
مرنے کی تمنّا ہے کہ ہے جینے کی خواہش
تم چاہتے کیا ہو یہ بتا کیوں نہیں دیتے
پروانے تمنّائے شہادت لئے گھومیں
تم شمعِ محبّت کو جلا کیوں نہیں دیتے
پھونکی ہے نئی روح تمہیں زندہ کیا ہے
حسرت ہے جو مرنے کی بُھلا کیوں نہیں دیتے
وہ نام سے پہچانے یہ چاہت ہے تمہاری
پھر اس سے تعلّق کو بڑھا کیوں نہیں دیتے
طارِق جو ملاقات کا پیغام ملا ہے
تم در پہ کھڑا ہو کے صدا کیوں نہیں دیتے

0
15