ہم عشق کے سفر میں سرابوں میں کھو گئے |
راہِ جنوں پہ چل کے خرابوں میں کھو گئے |
کچھ پھول سج گئے ہیں محبت کی سیج پر |
مرجھا کے چند پھول کتابوں میں کھو گئے |
پیاسی ہے گر زمین تو پیاسا ہے آسماں |
بارش کے قطرے تشنہ سحابوں میں کھو گئے |
شیریں لبوں سے جانے وہ کیا بولتا رہا |
ہم نیم وا لبوں کے گلابوں میں کھو گئے |
پیمانے بھر کے جب دئے ساقی نے بے حجاب |
مرشد مرید پیر شرابوں میں کھو گئے |
دیتا رہا جواب وہ ہر اک سوال کا |
سارے سوال اس کے جوابوں میں کھو گئے |
ماں کی دعائیں آفتوں کو ٹالتی رہیں |
ماں سے بچھڑ کے سخت عذابوں میں کھو گئے |
دن بھر خیالِ یار میں گم سم رہے سحابؔ |
ڈھلتے ہی رات یار کے خوابوں میں کھو گئے |
معلومات