ہم سارے ہی پورے ہیں آدھا نہیں کوئی
فنکار ہیں اک نمبر سادہ نہیں کوئی
پستا ہے جو نادار تو روتانہیں کوئی
اس دکھ میں بے چین بھی ہوتا نہیں کوئی
یا رب ہے سجانا مجھے اس دیس کو لازم
اس دیس کی خاطر مجھے کرنا ہیں دعائیں
اب اس کے سوا سر میں تو سودا نہیں کوئی
اک دور تھا وہ شیخ کی تکریم بہت تھی
اب شیخ سے بڑھ کر یہاں رسوا نہیں کوئی
نوحے ہیں جنازے ہیں گھر گھر میں ہے ماتم
نفرت کو مٹانے کا اعادہ نہیں کوئی
ہم شامتِ اعمال سبھی دیکھ رہے ہیں
پر خود کو بدلنے کا ارادہ نہیں کوئی
کیوں خود پہ تجھے ناز ہے اے مدِّ مقابل
قد میں بھی تو تُو مجھ سے زیادہ نہیں کوئی
اب اس سے بڑی اور مصیبت بھی ہے کوئی؟
بیمار ہوئی قوم مسیحا نہیں کوئی
کچھ نیک ہیں جو کرتے ہیں اللہ سے دعائیں
ایسانہیں اس دنیا میں اچھا نہیں کوئی
کرنے گئے امداد تو پھیلا دی تباہی
اس سے بڑا دنیا میں تو دکھاوا نہیں کوئی
منزل پہ پہنچنا ہو تو رہزن سے ہے بچنا
سو دوسرا ہر گز یہاں رستہ نہیں کوئی
کس طرح سے قومیں ہوئی برباد جہاں میں
قصے یہ ، سمجھنے کو سناتا نہیں کوئی
اس دنیا کے غم اور ستم ختم اگر ہوں
دل میں رہے پھر اور تمنا نہیں کوئی
کچھ لوگ کہ دیتے ہیں اس دنیا کو دھوکہ
دنیا سے بڑا پر یہاں دھوکہ نہیں کوئی
کیوں آس ہے اچھائی کی سب سے تجھے، معصوم!
اتنا بھی تو اس دنیا میں اچھا نہیں کوئی
وہ انساں جو اندر سے بھی باہر کی طرح ہو
کہنے کو تو ملتا ہے پہ ملتا نہیں کوئی
کہتے ہیں کہ ملتا ہے، پہ ملتا نہیں کوئی
ملنے کو تو مل جاتا پہ ڈھونڈا نہیں کوئی
طاہرہ مسعود

14