آسماں یا زمیں سے لے آؤ
کوئی ان سا کہیں سے لے آؤ
چاند کہتا تھا آسمانوں پر
نور میرا زمیں سے لے آؤ
رقص کرتا رہے جو ہونٹوں پر
ایسا مصرعہ کہیں سے لے آؤ
ان کے نازک لبوں کو چھو جائے
ایسا جھونکا کہیں سے لے آؤ
خاک جن کی حیات کا ساماں
ایک چٹکی انہیں سے لے آؤ
ہم منائیں تو مان جائیں گے
ان کو جا کر کہیں سے لے آؤ
ہے تمنا اویس کے سر کی
ایک پتھر وہیں سے لے آؤ

54