کہتا ہے ہر اک بجھتا دیا اور ہی کچھ ہے
اب کے جو چلی ہے وہ ہوا اور ہی کچھ ہے
کب میری زمیں پر نہیں ٹوٹیں ہیں بلائیں
اس بار مگر میرے خدا اور ہی کچھ ہے
دیتی ہے در عرش پہ فوراً ہی وہ دستک
جو دل سے نکلتی ہے دعا اور ہی کچھ ہے
ہر داغ معاصی کو مٹا دے گی، جو میری
ان آنکھوں میں چھائی ہے گھٹا اور ہی کچھ ہے
پھل کھانے پہ اتری مری خلعت، یا بتادے
یہ اُس کی سزا تھی یا خطا اور ہی کچھ ہے
ہیں سارے پرانے وہی کردار، یا تیری
دیکھوں تو کہانی میں نیا اور ہی کچھ ہے
میں بھی ذرا دیکھوں تری ریکھاؤں کے اندر
ہے نام بھی میرا یا لکھا اور ہی کچھ ہے
جب جب بھی کہا رحم، ہوئیں رحمتیں، لیکن
اس بار حبیب حکمِ خدا اور ہی کچھ ہے

0
112