نہیں سنبھلنے کا کوئی امکاں تری جدائی نے یوں بکھیرا |
یہ دل شب و روز ہے پریشاں تری جدائی نے یوں بکھیرا |
خزاں رسیدہ شجر کی سوکھی گری پڑی ٹہنیوں کے جیسے |
میں گرتا پڑتا ہوں اے مری جاں تری جدائی نے یوں بکھیرا |
کہیں سمندر میں جیسے طوفاں اکیلی ناؤ کو گھیرتا ہے |
نہ غم کے ماروں کا کوئی پرساں تری جدائی نے یوں بکھیرا |
میں خود کو بے مول کر رہا ہوں کہ مر بھی جاؤں تو ہو لحد پر |
نہ کوئی غمگیں نہ کوئی حیراں تری جدائی نے یوں بکھیرا |
ہے بعد میرے تمہیں سہولت جسے بھی چاہو جسے پکارو |
نہ میں رہا ہوں نہ عہد و پیماں تری جدائی نے یوں بکھیرا |
کہ بے وفائی کے تھے منور ثبوت ڈھیروں ہی پاس میرے |
نہ کر سکا میں یہ راز افشاں تری جدائی نے یوں بکھیرا |
معلومات