نہیں سنبھلنے کا کوئی امکاں تری جدائی نے یوں بکھیرا
یہ دل شب و روز ہے پریشاں تری جدائی نے یوں بکھیرا
خزاں رسیدہ شجر کی سوکھی گری پڑی ٹہنیوں کے جیسے
میں گرتا پڑتا ہوں اے مری جاں تری جدائی نے یوں بکھیرا
کہیں سمندر میں جیسے طوفاں اکیلی ناؤ کو گھیرتا ہے
نہ غم کے ماروں کا کوئی پرساں تری جدائی نے یوں بکھیرا
میں خود کو بے مول کر رہا ہوں کہ مر بھی جاؤں تو ہو لحد پر
نہ کوئی غمگیں نہ کوئی حیراں تری جدائی نے یوں بکھیرا
ہے بعد میرے تمہیں سہولت جسے بھی چاہو جسے پکارو
نہ میں رہا ہوں نہ عہد و پیماں تری جدائی نے یوں بکھیرا
کہ بے وفائی کے تھے منور ثبوت ڈھیروں ہی پاس میرے
نہ کر سکا میں یہ راز افشاں تری جدائی نے یوں بکھیرا

0
43