ہر سمت جو یہ جشن کا آغاز ہوا ہے
ہم تجھ سے ملے ہیں تو یہ اعجاز ہوا ہے
جو میرے تخیل میں یہ ہلچل سی مچی ہے
ایسا مری دنیا میں کبھی شاذ ہوا ہے
ہے پھر سے تلاطم کا وہی عزمِ تباہی
دل اپنے سکوں سے جو دغا باز ہوا ہے
دل کھول کے میں سامنے تیرے جو رکھوں گا
اب مجھ سے مری جاں جو تو ہمراز ہوا ہے
جس دل میں نہ جاگا ہو کوئی گیت وفا کا
پرسوز کبھی پھر تو نہ وہ ساز ہوا ہے
ہے تجھ سے عیاں یہ جو مسرت ہے ملن کی
رخ تیرا جو اس بات پہ گلناز ہوا ہے
یہ تیرا سحر ہے کہ ہوا سرخرو میں اب
یہ وقت جو میرا یوں ہم آواز ہوا ہے
یہ بات ہمایوں کو تو ہے اب سمجھ آئی
یہ وقت مرا جو نظر انداز ہوا ہے
ہمایوں

0
11