ہر سمت جو یہ جشن کا آغاز ہوا ہے |
ہم تجھ سے ملے ہیں تو یہ اعجاز ہوا ہے |
جو میرے تخیل میں یہ ہلچل سی مچی ہے |
ایسا مری دنیا میں کبھی شاذ ہوا ہے |
ہے پھر سے تلاطم کا وہی عزمِ تباہی |
دل اپنے سکوں سے جو دغا باز ہوا ہے |
دل کھول کے میں سامنے تیرے جو رکھوں گا |
اب مجھ سے مری جاں جو تو ہمراز ہوا ہے |
جس دل میں نہ جاگا ہو کوئی گیت وفا کا |
پرسوز کبھی پھر تو نہ وہ ساز ہوا ہے |
ہے تجھ سے عیاں یہ جو مسرت ہے ملن کی |
رخ تیرا جو اس بات پہ گلناز ہوا ہے |
یہ تیرا سحر ہے کہ ہوا سرخرو میں اب |
یہ وقت جو میرا یوں ہم آواز ہوا ہے |
یہ بات ہمایوں کو تو ہے اب سمجھ آئی |
یہ وقت مرا جو نظر انداز ہوا ہے |
ہمایوں |
معلومات