کرتا تو زر پہ مان ہے کچھ تو خیال کر |
یہ زر اک امتحان ہے کچھ تو خیال کر |
۔ |
مغرور ہو کے جس پہ تو کرتا ستم گری |
تیرا وہ حسن فان ہے کچھ تو خیال کر |
۔ |
پکڑا نہ کر تو ہاتھ مرا سب کے سامنے |
سنسار بد گمان ہے کچھ تو خیال کر |
۔ |
آنکھوں میں تیری خواب ہیں اک اپسرہ کے اور |
"کچا ترا مکان ہے کچھ تو خیال کر" |
۔ |
ممکن نہیں ترا ملن اس سے تو گر زمیں |
وہ مثلِ آسمان ہے کچھ تو خیال کر |
۔ |
بھولا ہے لم یزل کو تو دنیا کے شوق میں |
سب من علیہا فان ہے کچھ تو خیال کر |
۔ |
ضائع نہ بے وفا کے لیے زندگی کو کر |
ملتی بس اک ہی جان ہے کچھ تو خیال کر |
۔ |
مُرجھائے ہے یہ جلد ہی سوکھے رویّے سے |
یہ رشتہ مثلِ دھان ہے کچھ تو خیال کر |
۔ |
عاجز گرا رکھا ہے جسے تو نے زیرِ پا |
وہ حاکمِ جہان ہے کچھ تو خیال کر |
معلومات