عشق کی سجدہ گہ فرش ہو جائیں گے
وہ ہمارے لئے عرش ہو جائیں گے
وہ مرے پاس آئیں نہ آئیں مگر
دل کے آئینے پر نقش ہو جائیں گے
مے پلا دے اگر اپنے ہاتھوں سے وہ
جام یہ زندگی بخش ہو جائیں گے
تُو خیالات کو ڈھیل اتنی نہ دے
ورنہ بے قابو یہ رخش ہو جائیں گے
عقل سے کام لیں گے نہ گر جوش سے
پھر تو دُشمن بھی اِس پکش ہو جائیں گے
ہم جو طاعت میں اس کی رہیں عمر بھر
اس کے کردار کا نقش ہو جائیں گے
طارق اک زندگی دان کر کے اُسے
ایک سے ہم کئی لکش ہو جائیں گے

0
81