ہوں ناتواں مجھے جینے کا بوجھ کیا کم ہے |
ہوا و حرص میں ڈوبی فضا بتا کم ہے |
کسی کو دیکھ کے اٹھتی نہ تھی نگاہ کبھی |
حیا زمانے کی آنکھوں میں اب ذرا کم ہے |
تھا احترام بزرگوں کا شاملِ آداب |
ادب کے بارے میں لوگوں کو اب پتا کم ہے |
ہوں روشنی سے چکا چوند رات بھر نظریں |
کہ شب گزاری کو جلتا ہوا دیا کم ہے |
ہے جانے کتنے حسینوں سے عشق کا دعویٰ |
کہ دل لگی کے لئے ایک دلرُبا کم ہے |
ہر ایک پوچھتا ہے مجھ سے کیسا لگتا ہوں |
کہ اپنے عیب دکھانے کو آئنہ کم ہے |
کبھی تو خامُشی کی بھی صدا سنائی دے |
دلیل جب نہ ہو تو شعلۂ نوا کم ہے |
مریض کب ہوا اچھا فقط دواؤں سے |
شفا نہ پا سکا کوئی تو کچھ دعا کم ہے |
عجیب بات بتاتے ہیں علم والے اب |
کہ سانس لینے کو دنیا میں اب ہوا کم ہے |
مجھے یقین ہے طارق وہ کہہ نہیں سکتا |
مری بہشت میں تیرے لئے جگہ کم ہے |
معلومات