جی میں آتی ہے کہ جوں مہر اجالوں خود کو |
مطلعِ تیرہءِ مغرب سے اچھالوں خود کو |
اس سے پہلے کہ ہوا گرد اڑائے میری |
سوچتا ہوں کہ میں اک سنگ بنا لوں خود کو |
شیشہء دل میں تری بات سے بال آیا ہے |
تو ہی بتلا کہ میں کس طور سنبھالوں خود کو |
میرے اطراف میں اک آہ و بکا جاری ہے |
کیسے ممکن ہے اداسی سے بچا لوں خود کو |
دم بھی سینے میں اترتا ہے تو گھُٹ جاتا ہے |
جسم کی قید سے چاہوں کہ نکالوں خود کو |
اے دلِ زار مجھے خود میں سمٹ جانے دے |
اپنی بھیگی ہوئی پلکوں میں چھپا لوں خود کو |
معلومات