| آہ! آہ! التجاے درد |
| حالاتِ حاضرہ کے تناظر میں |
| از : محمد حسین مشاہد رضوی |
| یہ کیسا قہر و غضب بپا ہے |
| وباؤں کا ہر سو سلسلہ ہے |
| یہ سالِ حزن و ملال ٹھہرا |
| جو نعمتوں کا زوال ٹھہرا |
| ہے چار سو رنج و غم کا منظر |
| عروج پر ہے الم کا منظر |
| بلکتے بچے سسکتی آہیں |
| وہ غم سے اٹھتی ہوئیں کراہیں |
| یہ سال سب پر گراں ہوا ہے |
| جو سر پہ سایہ کناں ہوا ہے |
| نہ جانے کتنے ادیب گذرے |
| فقیہ و زاہد خطیب گذرے |
| گئے بہت سے فہیمِ کامل |
| علومِ دینِ نبی کے حامل |
| صغیر گذرے کبیر گذرے |
| فقیر گذرے امیر گذرے |
| فضائیں ہیں سوگوار ساری |
| خزاں رسیدہ بہار ساری |
| خدا، مشاہد کی التجا ہے |
| تجھے پیمبر کا واسطہ ہے |
| بلاؤں کو ہم سے دور کردے |
| عطا سبھی کو سرور کردے |
معلومات