گل جو کھلا ز ہر بھر گیا خاروں میں
شیخ شامل تھے اس کے خریداروں میں
ہجر کے ماروں کا بھی عجب حال تھا
ہو گئے سب ہی گل کے وفا داروں میں
جیسی نورِ جبیں سے پھو ٹی رو شنی
ایسی ہو وے نہیں چاند تاروں میں بھی
کوئی بھی مے کدہ میں جو اس کے گیا
لکھ دیا اس نے نام اس کا مہ خواروں میں
نُور برسا سبھی کے رو شن چہروں پر
جی یہی تو تھے سب گل جی کے پیاروں میں
جس کسی نے بھی دستِ مسیحا تھا ما
رہتا ہے وہ ہمیشہ بہاروں میں
عاشقانِ سحر تو سدا رہتے ہیں
امن سُکھ چین کی پختہ دیواروں میں
ہاں بہا روں کے دشمن جو بھی تھے جناب
لوٹتے رہ گئے سب وہ انگاروں میں
سازِ الفت بجا جو رہے ہو حسن
لگتا ہے بیٹھے ہو تم وفا داروں میں

0
63