مجھے تیری باتوں پہ پورا یقیں ہے |
مگر وسوسہ دل میں رہتا کہیں ہے |
یہ صورت کسی تجھ کو بھولا نہیں ہے |
مراا دل محبت کا تیری امیں ہے |
ہے رہتا جو دنیا میں اپنی مگن وہ |
کہ اس کے بنا جان جانِ خزیں ہے |
کہ ایسی وراثت ملی حسن کو ہے |
ترے بعد تو ہی ترا جانشیں ہے |
کہ نازوں میں رکھا ہے اس کو ہمیشہ |
کہ میرا جو محبوب ہے نازنیں ہے |
یہ چاہوں کہ تجھ سے کنارہ میں کر لوں |
مگر تیری عادت بھی جاتی نہیں ہے |
یوں تیرے بنا بھی نہیں ہے گزارا |
کہ احساس تیرا بہت ہی حسیں ہے |
سجائے وہ اس کو معطر کرے وہ |
مکاں میں مرے جو اکیلا مکیں ہے |
یہ گھاؤ کچھ اپنے بھی پالے ہوئے ہیں |
یہ غم جو ہے تیرا علاوہ ازیں ہے |
مجھے ساتھ تیرا بھی ملتا نہیں ہے |
بنا تیرے رہنا بھی مشکل تریں ہے |
یہ تیری ہمایوں خیالوں کی دنیا |
فلک تیری حد ہے نہ کوئی زمیں ہے |
ہمایوں |
معلومات