عشق میں زندگی یوں گزاری |
جو بتانے کے قابل نہیں ہے |
ہیں ہوئے اتنے میّت کے ٹکڑے |
لاش اٹھانے کے قابل نہیں ہے |
پوچھتے کیا ہو میری کہانی |
ہو چکا خشک آنکھوں سے پانی |
حال قصے کا اس نے کیا وہ |
کہ سنانے کے قابل نہیں |
میری الفت سے دھوکہ ہوا ہے |
داستانِ محبت گواہ ہے |
اس نے رسوا مجھے یوں کیا ہے |
سر اٹھانے کے قابل نہیں ہے |
میں نے جب بھی انھیں آزمایا |
یہ کلیجہ مرے منہ کو آیا |
مجھ پہ جو کرم اس نے کیا ہے |
وہ بتانے کے قابل نہیں ہے |
پیار مانگا تو کہنے لگے ہیں |
ہے لگا تجھ پہ داغ غریبی |
داغ دامن پہ جس کے لگا ہو |
چاہے جانے کے قابل نہیں ہے |
وہ تو لائے ہوئے ہیں حبیبا |
کہنے ان سے لگا یہ طبیبا |
تیرے عاشق کو موت آ گئی ہے |
ہوش آنے کے قابل نہیں ہے |
اس نے محفل میں ہم کو بلایا |
حکم پہنچے تو ہم کو سنایا |
دور والوں کو باہر بٹھا دو |
پاس لانے کے قابل نہیں ہے |
تم جو کہتے ہمیں آزما لو |
راز میرے سے پردہ ہٹا دو |
جانتے ہیں تری دوستی کو |
آزمانے کے قابل نہیں ہے |
یہ پیامِ اجل ہے سنایا |
اس نے میّت کو یوں ہے جلایا |
لاش کا حال تم نے کیا جو |
منہ دکھانے کے قابل نہیں ہے |
اب تو کر لے ترس بندگی پر |
کے گہن لگ چکا زندگی پر |
زندگی اب ہماری خدایا |
غم اٹھانے کے قابل نہیں ہے |
نام سالک لیا جب کسی نے |
یوں کہا اب پڑا بے بسی میں |
شخص ایسے کا کیوں پوچھتے ہو |
کام آنے کے قابل نہیں ہے |
معلومات