میں نے دیکھا ہے پرندوں کو بھی مرجھاتے ہوئے |
میں نے پھولوں کو بھی دیکھا ہے بدلتے ہوئے رنگ |
میں نے دیکھا ہے درندوں میں بھی اسلوبِ سُخن |
میں نے ہر آبِ رواں گرتا ہوا دیکھا ہے |
تم گواہ اپنی وفاؤں کا جسے کہتے رہے |
میں نے وہ شعلہ دہن ڈھلتے ہوئے دیکھا ہے |
جن کو گردانا تھا جمہور نے سردارِ سخن |
اُن کے الفاظ کو بھی بکتے ہوئے دیکھا ہے |
خامؔ یاں گُل کے تئیں خار بکا کرتے ہیں |
خامؔ یاں روشنی بھی آنکھ کا بس دھوکا ہے |
معلومات