میں نے دیکھا ہے پرندوں کو بھی مرجھاتے ہوئے
میں نے پھولوں کو بھی دیکھا ہے بدلتے ہوئے رنگ
میں نے دیکھا ہے درندوں میں بھی اسلوبِ سُخن
میں نے ہر آبِ رواں گرتا ہوا دیکھا ہے
تم گواہ اپنی وفاؤں کا جسے کہتے رہے
میں نے وہ شعلہ دہن ڈھلتے ہوئے دیکھا ہے
جن کو گردانا تھا جمہور نے سردارِ سخن
اُن کے الفاظ کو بھی بکتے ہوئے دیکھا ہے
خامؔ یاں گُل کے تئیں خار بکا کرتے ہیں
خامؔ یاں روشنی بھی آنکھ کا بس دھوکا ہے

115