| محبتوں کا نصاب لکھوں |
| میں اپنے غم پر کتاب لکھوں |
| اگرچہ مجھ کو مٹا رہا ہے |
| میں تجھ کو پھر بے حساب لکھوں |
| وہ باتیں کی تھیں جو تو نے ساری |
| میں ان کا لبِّ لباب لکھوں |
| میں تجھ کو اک اور رقعہ بھیجوں |
| سرِ ورق میں جناب لکھوں |
| اٹھاکے مٹی میں دشتِ دل کی |
| ترے نگر کا سراب لکھوں |
| زوال کے آفتاب کی میں |
| تپش سے تیرا شباب لکھوں |
| گلوں کے زردانوں کو میں تیرے |
| سیاہ سر کا خضاب لکھوں |
| جو تجھ کو بے وجہ ہی ستائے |
| میں اس کو شرُّ الدَّواب لکھوں |
| گزار کر تیرے ساتھ صدیاں |
| میں اس کو پھر اک حباب لکھوں |
| تو پڑھ کے جس کو کرے محبت |
| میں ایسا تیرا نصاب لکھوں |
معلومات