وہ میرا پیار ہے کُل کائنات تھوڑی ہے
رضا کا ربط ہے قیدِ حیات تھوڑی ہے
بس ایک باب کا عنوان ہی محبت ہے
تمام عمر کی یہ واردات تھوڑی ہے
تمام رشتے یاں اب موسموں کی زد میں ہے
کسی لگاؤ کو یاں پر ثبات تھوڑی ہے
وداع کیا تھا جہاں سے رکا ہوا ہوں وہیں
یہ ہے تو ترکِ تعلق نجات تھوڑی ہے
سفر میں پہلی رکاوٹ پہ ہاتھ چھوڑ گیا
کوئی بھی ہاتھ پکڑ لے یہ ساتھ تھوڑی ہے
بساطِ دل ہے کشادہ سبھی چلے آؤ
بہت لچک ہے یہاں پر یہ دھات تھوڑی ہے

0
17