کیا تیرا آغاز ہے
یہ خودی کا راز ہے
تجھ سا پیدا دوسرا
کونسا شہباز ہے
پل میں پہنچے عرش پر
روح کی پرواز ہے
تیری ہر پرواز پر
رب کو تیرے ناز ہے
اصل تیری ہے قفط
تو قلندر باز ہے
دل میں تیرے بج رہا
غور کر اک ساز ہے
آسماں کو چیر دے
دل کی وہ آواز ہے
کام کا ہے آدَمی
گر ترا انداز ہے
تو ہے حق اس راز پر
خود خدا ہمراز ہے
بندہ حق کا اے ذکیؔ
حق کا ہی اعجاز ہے

113