| کیا تھا بتا قصور نظر گر بھٹک گئی |
| چہرہ عیاں ہوا جہاں چلمن سرک گئی |
| پیچھا کیا تھا حدِّ نظر تک نگاہ نے |
| جانا اسے تو سوچ بہت دور تک گئی |
| ہم کو نہ دوش دو کہ مسافر تھے ہم غریب |
| جس پر بھی ہم چلے اسی کے گھر سڑک گئی |
| دل اس کا ذکر آیا تو قابو نہیں رہا |
| ہاں مانتے ہیں آنکھ ہماری چھلک گئی |
| شہرت زمانے بھر میں ہوئی اس کے نور کی |
| دنیا بھی دیکھنے کو فقط اک جھلک گئی |
| دیکھا نظر نے ڈھونڈنے کو کوئی نقص جب |
| پایا نہ عیب کوئی یہاں تک کہ تھک گئی |
| سمجھایا ہم نے ہر طرح مضمونِ عشق کو |
| سمجھا نہ سُوئی اس کی تھی اک جا اٹک گئی |
| پوشیدہ اس سے کب رہی تھی دل کی کشمکش |
| طارق تو خوش ہوا مری قسمت چمک گئی |
معلومات