نورِ رب ہو خلق کے سردار تم ہو
دو جہاں کے مالک و مختار تم ہو
مہکا باغِ انبیاء جس کی مہک سے
اس گلستاں کے گل و گلزار تم ہو
جس کی میٹھی باتیں گھر کرتی ہیں دل میں
ایسے شیریں لہجہ خوش گفتار تم ہو
موہ لیتی دل کو جس کی سب ادائیں
میرے آقا وہ حسیں کردار تم ہو
پہلے تھے وہ آدم و موسی و عیسیٰ
مصطفی بخشش کا اب معیار تم ہو۔
حشر میں خلقت شفاعت کو پھرے گی
شافعِ محشر اسی دن یار تم ہو
سامنے جس کے سرِ اہلِ عرب خم
ایسے عالی مرتبہ سردار تم ہو
تاباں جس کے نور سے ہے قبرِ عاجز
یا نبی وہ منبعِ انوار تم ہو

4