غزل |
بینک میں کھاتہ محبّت کا بھی کھولا جاتا |
عِشق لیژر کو ہر اِک لمحہ ٹٹولا جاتا |
چیک بھرتا جو کبھی کیش کرانے کے لِیئے |
"کھاتہ خالی ہے" بڑے پیار سے بولا جاتا |
کاش تریاق تِرے لب کا مُیسّر آتا |
میرے اندر کا تو یہ سانپ سپولا جاتا |
ہم کو دعوا تو نہِیں تُم سے محبّت کا مگر |
کاش مِیزان میں جذبات کو تولا جاتا |
نہ تو مِلتے نہ کوئی دِل میں تلاطُم اُٹھتے زِیست آساں تھی اگر زہر نہ گھولا جاتا |
بھیجتا تھا جو قمِیض اپنی خُوشی میں سب کو |
کُچھ بعِید اُس سے نہِیں اُس کو بھی چولا جاتا |
جِس نے لُوٹا ہے مگر دِل وہ کہاں لوٹاتا؟ |
پاکبازوں کا بھلے کھوج میں ٹولا جاتا |
ہم نے محفوظ رکھا اِس کو خزانے کی طرح |
مر ہی جاتے جو کبھی دِل سے پھپھولا جاتا |
ہاتھ رکھتا تو کوئی دِل پہ محبّت سے رشِیدؔ |
لب بھی چُپ رہتے، مِرے دِل کا بھی رولا جاتا |
رشِید حسرتؔ |
معلومات