ہم پہ ہر راز آشکار کرو
ہم ہیں ہمراز آشکار کرو
میرے اندر چُھپا ہُوا ہے جو
راز کا راز آشکار کرو
وہ جو مُجھ میں ہی گُنگناتا ہے
اُس کا ہر ساز آشکار کرو
رُوح مُجھ میں وہ کیسے پھونکی تھی
وہ ہی انداز آشکار کرو
میرے کانوں میں پھر اَلَستْ کہو
مُجھ پہ آغاز آشکار کرو
کہہ کے عَبْدِیْ مُجھے بُلاتے ہو
اپنی آواز آشکار کرو
طُور کو آگ جو لگاتا ہے
حُسنِ پُر ناز آشکار کرو
قَابَ قَوسَیْن جن کی منزل ہے
اُن کا اعجاز آشکار کرو
جس نے ہر رُوپ تیرا دیکھا ہے
وہ نظر باز آشکار کرو
راز تیرے جو آشکار کریں
ایسے جاں باز آشکار کرو
تیرا نائب میں بن کے آیا ہوں
میرا اعزاز آشکار کرو
لا مکاں پار کر لیا جس نے
وہ ہوں شہباز آشکار کرو
نغمۂ سوز میں سناؤں کاسے
میرا ہم ساز آشکار کرو
اپنی قُربت سے اس غلاؔم کو تم
کر کے مُمتاز آشکار کرو

0
15