بِن عمل ، جو پڑھائی کرتا ہے
کیا یونہی سر کھپائی کرتا ہے؟
وہ شہنشاہوں سے بھی ہے افضل
اس کی جو بھی گدائی کرتا ہے
چاندنی تو بلائیں لیتی ہے
چاند کب بیوفائی کرتا ہے
جیسا بوتا ہے بیج ، ویسی ہی
فصل کی بھی کٹائی کرتا ہے
حسنِ ظن جب نہ ہو تعلّق میں
پھر تو یہ جگ ہنسائی کرتا ہے
تیشہ چلتا ہے کوہکن کا جب
حسن تب آشنائی کرتا ہے
دیکھنا عشق کی کہانی میں
کون کب لب کشائی کرتا ہے
منحصر ہے نتیجہ تو اس پر
کون دل کی صفائی کرتا ہے
چاک دامن لئے پھرا اب تک
وہ عبث اب سلائی کرتا ہے
وقت بتلائے گا ، کہیں ہم کیا
کون کس سے لڑائی کرتا ہے
کیا کہیں شعر ، اور ہم طارق
کہتے ہیں ، خود نُمائی کرتا ہے

0
10